وہ دباؤ جس کے بعد بھٹو بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے


پاکستان، بنگلہ دیش، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

شیخ مجیب الرحمان 23 فروری 1974 کو لاہور آئے تھے

  • مصنف,نجیب بہار
  • عہدہ,بی بی سی نیوز بنگلہ، ڈھاکہ

جنوری 1972 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دولت مشترکہ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی کیونکہ برطانیہ نے بنگلہ دیش کو بحیثیت ایک آزاد ریاست تسلیم کر لیا تھا۔

لیکن وہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنھوں نے دو سال بعد بحیثیت پاکستان کے وزیرِ اعظم اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ مجیب الرحمان کا لاہور ایئرپورٹ پر پُرتپاک استقبال کیا۔

بحیثیت بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان کے لاہور میں استقبال کے دوران انھیں ’گارڈ آف آنر‘ یعنی 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔

اس موقع پر سفارتی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نہ صرف بنگلہ دیشی پرچم لہرایا گیا بلکہ اس کا ترانہ بھی سپیکروں پر بجایا گیا۔

یہ 23 فروری 1974 کا دن تھا۔ تحریکِ آزادی بنگلہ دیش کے دوران شیخ مجیب الرحمان نے پاکستانی جیل میں نو مہینے بھی گزارے تھے لیکن اس بار وہ پاکستان کا دورہ بحیثیت ایک آزاد ریاست کے وزیرِ اعظم کر رہے تھے۔

وزیرِ اعظم شیخ مجیب الرحمان کا سات رُکنی وفد لاہور میں اسلامی تعاون تنظیم کے دوسرے اجلاس میں شرکت کرنے آیا تھا۔

اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس تین دن پر مشتمل تھا لیکن بنگلہ دیشی وفد اس میں شرکت کے لیے پہلے دن نہیں بلکہ دوسرے دن پاکستان آیا تھا۔

پاکستان آمد کا حتمی فیصلہ شیخ مجیب الرحمان نے اس وقت کیا جب 22 فروری 1974 کو پاکستانی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سرکاری طور پر بنگلہ دیش کے وجود کو تسلیم کیا۔

پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا ایک ایسا واقعہ تھا جو کہ لاہور میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں موضوعِ گفتگو رہا۔ اس سے متعلق دیگر خبریں بھی اس وقت بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کی زینت بنی تھیں۔

لیکن یہاں یہ سوالات اُٹھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے سب سے بڑے مخالف ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا موقف تبدیل کیوں کیا؟ اور پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا صرف دو سال قبل وجود میں آنے والے ملک کے لیے کتنی بڑی سفارتی کامیابی تھی؟

پاکستان، بنگلہ دیش، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان

،تصویر کا ذریعہREUTERS

،تصویر کا کیپشن

22 فروری 1974 کو پاکستانی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سرکاری طور پر بنگلہ دیش کے وجود کو تسلیم کیا

بھٹو کے مؤقف میں تبدیلی کیوں؟

بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بھٹو کے مؤقف کی سختی کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے جنوری 1972 میں متعدد ممالک سے اس لیے تعلقات منقطع کر لیے تھے کیونکہ انھوں نے بنگلہ دیش کو بطور آزاد ملک تسلیم کیا تھا۔

اسی سال 14 جنوری کو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی طرف سے رپورٹ کیا گیا کہ پاکستان نے انڈیا کے بعد بلغاریہ، پولینڈ اور منگولیا کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں کیونکہ ان ممالک نے بنگلہ دیش کو بطور آزاد ملک تسلیم کر لیا ہے۔

پاکستان کی طرف سے یہ بھی اعلان کیا گیا کہ وہ ان تمام ممالک سے سفارتی تعلقات ختم کر دے گا جو بنگلہ دیش کے آزاد وجود کو تسلیم کریں گے۔

لیکن اگلے دو برس میں ایسا کیا ہوا کہ وزیرِ اعظم بھٹو کو اپنے مؤقف ہی پر یوٹرن لینا پڑا؟ اس کی وجہ پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات اور مسلم ممالک کی جانب سے ڈالے جانے والا دباؤ تھا۔

بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران 90 ہزار پاکستانی بشمول فوجی، سویلین، بچے اور خواتین کو قیدی بنا لیا گیا تھا اور انھیں انڈین فوج کی نگرانی میں انڈیا لے جایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ تقریباً چار لاکھ سے زائد بنگلہ دیشی پاکستان میں پھنسے ہوئے تھے۔ دوسری جانب بنگلہ دیش میں پھنسے اردو بولنے والے بہاریوں کا مسئلہ بھی اس وقت تک حل نہیں ہوا تھا۔

چونکہ اس وقت پاکستان کے بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے اس لیے جنگی قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ بھی تاخیر کا شکار ہو رہا تھا۔

جنگی قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان شملہ معاہدہ 1972 جبکہ دہلی معاہدہ اگست 1973 میں طے ہوا تھا۔ اس کے بعد جنگی قیدیوں کی حوالگی کا عمل شروع ہوا تھا۔

وزیرِ اعظم بھٹو کو بنگلہ دیش سے تعلقات اس لیے بھی بہتر کرنا پڑے کیونکہ ان پر ان کے سیاسی حریفوں اور عوام کی طرف سے دباؤ تھا کہ جنگی قیدیوں کو آزاد کروا کر پاکستان لایا جائے۔

پاکستان، بنگلہ دیش، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان

،تصویر کا ذریعہ100 YEARS OF MUJEEB

،تصویر کا کیپشن

بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران 90 ہزار پاکستانی بشمول فوجی، سویلین، بچے اور خواتین کو قیدی بنالیا گیا تھا

لاہور میں اسلامی تعاون تنظیم کی کوریج کرنے والے صحافی حسین نقی کہتے ہیں کہ یہی وجوہات تھیں کہ جب 1974 میں بھٹو نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان میں عوام نے اس فیصلے کو مثبت انداز میں قبول کیا۔

حسین نقنی کہتے ہیں کہ ’1971 میں بنگلہ دیش میں جاری جنگ کے حوالے سے عام لوگوں کو نہیں معلوم تھا کہ وہاں کس قسم کا تشدد ہوتا رہا ہے کیونکہ اس وقت ٹی وی چینلز اور اخبارات وغیرہ سرکار کے زیرِ اثر تھے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’جب جنگ ختم ہوئی اور لوگوں کو صورتحال کا انداز ہونے لگا تو یہاں بنگلہ دیش کے حوالے سے حمایت بڑھنا شروع ہوگئی۔‘

دوسری طرف مسلم دنیا کے بااثر سربراہان بھی بھٹو پر سفارتی دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ بنگلہ دیش کو بطور آزاد ملک تسلیم کریں۔

امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق وزیرِ اعظم بھٹو نے اس فیصلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے یہ فیصلہ بہت پسند تھا لیکن کچھ بڑے ممالک نے ہمیں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا، ہمارے مخالفین نے نہیں بلکہ ہمارے دوستوں اور بھائیوں نے۔'

اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے اختتام کے بعد لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بھٹو نے تسلیم کیا تھا کہ بنگلہ دیش کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے کے پیچھے کچھ بااثر مسلمان ممالک بھِی تھے۔

مجیب الرحمان کی سفارتی کامیابی

بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت موجود سفارتکار اور تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم شیخ مجیب الرحمان کے متحرک سفارتی کردار نے اس وقت مسلم دُنیا کے بااثر رہنماؤں کے دلوں میں بنگلہ دیش کے لیے دوستانہ جذبات جگائے۔

سنہ 1973 میں شام، مصر اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران شیخ مجیب الرحمان نے شام اور مصر نہ صرف بنگلہ دیشی ڈاکٹروں کو بھیجا بلکہ تحفے میں چائے بھی بھیجی۔

یہ تحفے محمد ضمیر نامی سفارتکار نے مصر اور شام پہنچائے تھے۔ محمد ضمیر 1971 میں مصر میں بطور پاکستانی سفارتکار بھی خدمات سرانجام دے چکے تھے۔

محمد ضمیر کہتے ہیں کہ 'جب بنگلہ دیش کی جانب سے مصر اور شام کو تحفے بھیجے گئے تو اس سے مسلم ممالک کے بااثر رہنماؤں کے دلوں میں بنگلہ دیش کے لیے مثبت جذبات پیدا ہوئے اور اسی لیے بنگلہ دیش کو لاہور میں اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔'

لیکن لاہور میں اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کا دعوت نامہ موصول ہونے کے باوجود بنگلہ دیش نے اس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا تھا۔

پھر اس وقت کے کویتی وزیرِ خارجہ صباح الاحمد الجابر الصباح اپنے سات رُکنی وفد کے ساتھ بنگلہ دیش پہنچے اور شیخ مجیب الرحمان کو ساتھ لے کر لاہور پہنچے۔

کویتی وزیرِ خارجہ کی قیادت میں یہ وفد اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس سے کچھ دن قبل الجزائر کے صدارتی جہاز میں ڈھاکہ پہنچا تھا۔

سابق سفارتکار ضمیر احمد کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان نے انھیں اسلامی تعاون تنظیم کے وفود سے رابطے بڑھانے کی ذمہ داری سونپی تھی کیونکہ وہ عربی اور فرانسیسی زبانیں روانی سے بولتے تھے۔

پاکستان، بنگلہ دیش، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان

،تصویر کا ذریعہREUTERS

،تصویر کا کیپشن

شیخ مجیب الرحمان اور ان کا وفد الجزائر کے صدر کے جہاز میں لاہور پہنچا تھا

محمد ضمیر کہتے ہیں کہ 'شیخ مجیب الرحمان نے کویتی وزیرِ خارجہ کے وفد کے سامنے تین شرائط رکھی تھیں اور وہ یہ تھیں کہ بنگلہ دیش اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اس صورت میں شرکت کرے گا جب لاہور میں بنگلہ دیشی پرچم لہرایا جائے، قومی ترانہ بجایا جائے اور پاکستان بنگلہ دیش کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرے۔'

وہ مزید کہتے ہیں کہ 'کویتی وزیرِ خارجہ نے شیخ مجیب الرحمان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ ان کی تمام شرائط مان لی جائیں گی۔ اس کے اگلے ہی دن بھٹو نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا اور پھر بنگلہ دیشی وفد الجزائر کے صدارتی جہاز میں لاہور روانہ ہوا۔'

متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت مجیب الرحمان کو اندازہ تھا کہ اگر پاکستان سفارتی سطح پر بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیتا ہے تو باقی مسلمان ممالک بھی کرلیں گے۔

بنگلہ دیشی صحافی صحافی ہارون حبیب کہتے ہیں کہ ’اسی لیے شیخ مجیب الرحمان نے پاکستان کی جانب سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے فیصلہ کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھا۔‘

اس معاملے میں مسلم ممالک کے سربراہان کا کیا کردار تھا؟

اس وقت مسلمان ممالک کے سربراہان نے بنگلہ دیشی وفد کو لاہور بلوانے کے معاملے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے بھٹو کو راضی کیا کہ وہ بنگلہ دیش کو تسلیم کریں بلکہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی استوار کریں۔

اس وقت بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے یہ خبریں چلائی گئیں کہ بنگلہ دیش کو لاہور میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کو مدعو کروانے کے پیچھے سعودی بادشاہ فیصل، مصری صدر انور سادات اور الجزائر کے صدر کی کوششیں کارفرما تھیں۔

پاکستانی ہفتہ وار اخبار 'دی فرائیڈے ٹائمز' نے اس حوالے سے یہ خبر بھی چھاپی کہ بنگلہ دیش کو دعوت نامہ بھیجنے کے پیچھے لیبیا کے رہنما معمر قذافی کا بھی ایک بڑا کردار تھا۔

صحافی جاوید علی خان نے 2019 میں اپنے ایک آرٹیکل میں اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔

پاکستان، بنگلہ دیش، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان

،تصویر کا ذریعہ100 YEARS OF MUJEEB

،تصویر کا کیپشن

بنگلہ دیش کو اجلاس کا دعوت نامہ بھیجنے کے پیچھے لیبیا کے رہنما معمر قذافی کا بھی ایک بڑا کردار تھا

وہ لکھتے ہیں کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوسرے دن 23 فروری کو تمام مہمانوں کے لیے لاہور کے شالیمار گارڈنز میں ایک عشائیہ منعقد کیا گیا تھا۔

شالیمار گارڈنز کی دوسری منزل پر اسی دوران لیبیا کے رہنما معمر قذافی اور فلسطینی رہنما یاسر عرافات نمودار ہوئے اور ان کے ساتھ ذوالفقارعلی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان بھی موجود تھے۔

اسی وقت معمر قذافی نے شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ پکڑ کر فضا میں بلند کردیے اور عربی میں نعرہ لگایا 'آخی، آخی' یعنی بھائی، بھائی۔

جاوید علی خان کے آرٹیکل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لمحات معمر قذافی کی کوششوں سے ہی حقیقت میں بدلے تھے اور انھوں نے ہی پاکستان اور بنگلہ دیش کے وزرا اعظم کو ساتھ کھڑے ہونے پر راضی کیا تھا۔

جاوید علی خان کے مطابق معمر قذافی کا شمار اس وقت کے مقبول ترین لوگوں میں ہوتا تھا اور ان کے اس رویے سے دونوں ممالک کے لوگ جنگ کی کڑواہٹ بھولنے پر راضی بھی ہو سکتے تھے۔

شیخ مجیب الرحمان کا لاہور جانے کا فیصلہ، بنگلہ دیش میں کیا مناظر تھے؟

بنگلہ دیشی صحافی ہارون حبیب کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان کے پاکستان جانے کے فیصلے اور پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے اعلان پر ملک بھر میں ملے جُلے تاثرات دیکھنے میں آئے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر جہاں لوگوں کے دلوں میں مثبت جذبات پائے جاتے تھے وہیں کچھ لوگ خفا تھے کہ جنگ کے بعد اتنے قلیل عرصے میں بنگلہ دیشی وفد نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔'

وہ کہتے ہیں کہ جون 1974 میں جب پاکستانی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکہ پہنچے تب بھِی لوگوں کی جانب سے گرمجوشی اور خفت کے ملے جُلے جذبات دیکھنے میں آئے۔

ہارون حبیب کے مطابق کچھ لوگ بھٹو کا خیرمقدم کرنے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور کچھ لوگ ان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کی آزادی کی مخالفت کی تھی۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیشی وفد کی پاکستان روانگی کو بنگلہ دیشی اخبارات نے مثبت طریقے سے رپورٹ کیا تھا۔

'اس وقت شاید کچھ لوگوں کے نزدیک پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی اہمیت نہ ہو لیکن شیخ مجیب الرحمان اس کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے اور اسی لیے وہ بہت سارے لوگوں کو ناراض کرکے پاکستان کی دعوت پر لاہور گئے ۔'

Post a Comment

Previous Post Next Post

728x90