بالاج ٹیپو ٹرکاں والا کا قتل: اندرون لاہور میں انڈر ورلڈ اور نسل در نسل دشمنی کی داستان


بالاج ٹیپو

،تصویر کا ذریعہFACEBOOK/AMEER BALAJ TIPU TRACKANWALA

،تصویر کا کیپشن

بالاج ٹیپو کو ایک شادی کی تقریب کے دوران ہلاک کیا گیا، ان کے والد ٹیپو ٹرکاں والا (بائیں جانب) اور ان کے دادا بِلا بِلا ٹرکاں (دائیں جانب) کو بھی قتل کیا گیا تھا

  • مصنف,عمر دراز ننگیانہ
  • عہدہ,بی بی سی اردو، لاہور

جس قسم کی زندگی نے ان کو چُنا اس کی بہت سی پیچیدگیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ زیادہ کہیں آ جا نہیں سکتے تھے۔

اندرون لاہور کے سرکلر روڈ کے باسی ’ٹرکاں والا‘ خاندان سے تعلق رکھنے والے امیر بالاج ٹیپو کو اگر اپنے ’ڈیرے‘ کی چار دیواری سے نکل کر کہیں بھی باہر آنا جانا ہوتا تھا تو مسلح محافظوں کا ایک قافلہ گاڑیوں میں ان کے آگے اور پیچھے ہوتا تھا۔

زندگی کا یہ طرز انھوں نے اپنے والد کے قتل کے بعد اس وقت اپنایا جب صرف 17 یا 18 برس کی عمر میں انھیں ’خاندانی دشمنی‘ کا بار اٹھانا پڑا۔ سنہ 2010 میں ان کے والد عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والا کو دبئی سے واپسی پر لاہور ایئر پورٹ پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

حال ہی میں امیر بالاج ٹیپو اپنے روایتی حفاظتی حصار کے ساتھ لاہور کے ایک پوش علاقے کی نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں اپنے ایک دوست کی شادی کی تقریب میں شریک تھے۔ اسی تقریب میں ایک شخص فوٹوگرافر کے روپ میں موجود تھا جس نے اپنے لباس میں بندوق چھپا رکھی تھی۔

چونگ پولیس کے مطابق اس شخص نے تقریب کے دوران کئی مرتبہ بالاج کے قریب جانے کی کوشش کی تاہم ان کے محافظوں نے اس کو پیچھے دھکیل دیا۔ تاہم ایک موقع پر فوٹوگرافر کا روپ دھارے اس شخص کو بالاج کے قریب پہنچنے کا موقع مل گیا۔

اس نے لباس میں چھپائی بندوق نکالی اور بالاج پر فائرنگ کر دی۔ بالاج کے محافظوں نے جوابی فائرنگ کی جس سے حملہ آور موقع پر ہلاک ہو گیا۔ لیکن اس سے قبل اس کی چلائی ہوئی لگ بھگ چار گولیاں بالاج کے جسم میں پیوست ہو چکی تھیں۔

ان کو زخمی حالت میں لاہور کے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ ہلاک ہو گئے۔ پولیس نے ان کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ان کے بھائی امیر مصعب نے اپنے بھائی کے قتل کا الزام خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ پر عائد کیا ہے۔

انھوں نے پولیس کو دی گئی درخواست میں فائرنگ کے واقعہ کے حالات قدرے مختلف بتائے ہیں جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ان کے بھائی پر تین سے چار نامعلوم افراد نے گولیاں چلائیں۔ گولیاں چلانے سے پہلے انھوں نے للکار کر کہا کہ تمہیں ’طیفی بٹ اور گوگی بٹ سے دشمنی کا مزہ چکھاتے ہیں۔‘

پولیس ان دونوں کی تلاش میں ہے۔ بالاج پر حملہ کرنے والے ’شوٹر‘ کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ طیفی بٹ کا ملازم تھا۔

لیکن گوگی بٹ اور طیفی بٹ ہیں کون اور ان کی ٹرکاں والا سے کیا دشمنی ہے۔ کیا یہی دشمنی امیر بالاج ٹیپو کی موت کا سبب بنی؟

کشمیری پہلوان اور ٹرکوں والے

فائل فوٹو: پہلوان دنگل کر رہے ہیں

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

ٹیپو ٹرکاں والا کے دو ماموں بھی مشہور پہلوان ہیں جن کا نام خالد محمود عرف بھائی پہلوان اور سلطان پہلوان تھا (فائل فوٹو)

لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی بتاتے ہیں کہ ٹرکاں والا کے نام سے مشہور خاندان بنیادی طور کشمیری ہیں اور ان میں کئی نامی گرامی پہلوان گزرے ہیں۔ یہ لاہور کے شاہ عالم گیٹ کے باہر کے علاقے جسے عرف عام میں شاہ عالمی کہا جاتا ہے وہاں آباد ہے۔

ان کا گڈز ٹرانسپورٹ کا بھی ایک وسیع کاروبار ہے اور یہیں سے غالباً ان کے ناموں کے ساتھ ’ٹرکاں والا‘ کا اضافہ ہوا۔

ماجد نظامی کہتے ہیں کہ امیر بالاج ٹیپو کے دادا بِلا ٹرکاں والا کی شادی جس خاندان میں ہوئی ان میں پاکستان کے نامی گرامی پہلوان نبی بخش گزرے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں ’ٹیپو ٹرکاں والا کے دو ماموں بھی مشہور پہلوان ہیں جن کا نام خالد محمود عرف بھائی پہلوان اور سلطان پہلوان ہیں۔ یہ دونوں اپنے اکھاڑے بھی چلاتے تھے۔ ان میں سے سلطان پہلوان نے خود کو مذہبی سرگرمیوں تک محدود کر لیا ہے جبکہ بھائی پہلوان اب بھی کاروبار دیکھتے ہیں۔‘

بھائی پہلوان کا اکھاڑہ اب بھی موجود ہے اور چلتا ہے۔ پہلوانوں کے اس خاندان کا نام گڈز ٹرانسپورٹ کے ساتھ جڑا ہے جس میں ان کے درجنوں کی تعداد میں ٹرک پاکستان کے طول و عرض میں چلتے ہیں اور گڈز ٹرانسپورٹ کرتے ہیں۔

پہلوانی اور ٹرکوں سے ’انڈر ورلڈ‘ کا رخ

فائل فوٹو: ٹرک کھڑے ہوئے ہیں

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

ٹرکاں والا خاندان کا گڈز ٹرانسپورٹ کا بھی ایک وسیع کاروبار ہے (فائل فوٹو)

لاہور کی شاہ عالم یا شالمی مارکیٹ میں بھی اس خاندان کا بڑا اثر و رسوخ ہے۔ یہیں قریب ہی بِلا ٹرکاں والا کا ڈیرہ بھی ہوا کرتا تھا جو نسلوں میں آگے چلتا چلتا آج بھی موجود ہے۔

صحافی ماجد نظامی کے مطابق ’بِلا ٹرکاں والا کی آشنائی اُس دور کے اندرون لاہور کے ’انڈر ورلڈ‘ سے اس طرح ہوئی کہ ان کے ڈیرے پر اشتہاری پناہ لیتے تھے اور پھر ان اشتہاریوں کو وہ اپنے کاموں کے لیے استعمال کرتے تھے۔‘

لیکن زیادہ تر یہ کام معمولی نوعیت کے جرائم تھے جن میں بیشتر دکانوں پر قبضہ کرنے جیسے معاملات ہوتے تھے۔ یا پھر ’بدمعاشی اور لڑائی جھگڑے‘ وغیرہ کے واقعات ہوتے تھے۔ تاہم بڑھتے ہوئے یہ کام یہاں تک پہنچا کہ ان کے آدمیوں کے ہاتھوں ایک قتل ہو گیا۔

اس واقعے میں بِلا ٹرکاں والا کے جوان بیٹے ٹیپو ٹرکاں والا کا نام آ رہا تھا۔ اس قتل اور اس سے جڑے بعد کے واقعات نے ٹرکاں والا خاندان کے لیے زندگی کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا لیکن اس کے چند حقائق کے حوالے سے مخلتف آرا پائی جاتی ہیں۔

قریبی ساتھیوں کے ہاتھوں بِلا کا قتل

فائل فوٹو: بندوق

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

بالاج جس شادی کی تقریب میں تھے وہاں ایک شخص فوٹوگرافر کے روپ میں موجود تھا جس نے اپنے لباس میں بندوق چھپا رکھی تھی (فائل فوٹو)

صحافی ماجد نظامی کے مطابق یہ ایک قتل کا واقعہ تھا اور اس کے مقدمے میں بِلا ٹرکاں والا کے بیٹے عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والا کا نام آ رہا تھا۔ بلا ٹرکاں والا کے دو بااعتماد ملازم تھے جن کا نام حنیف بابا اور شفیق بابا بتائے جاتے ہیں۔

بِلا ٹرکاں والا نے قتل کے مقدمے میں سے اپنے بیٹے کا نام نکلوا کر حنیف کا نام دے دیا ،اس وعدے پر کہ وہ بعد میں اس کو رہا کروا لیں گے۔ لیکن حنیف سزا پا کر جیل چلا گیا۔

جنگ اور جیو گروپ سے منسلک لاہور کے صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پر ایک خاتون سے زیادتی کا واقعہ تھا جس میں بِلا ٹرکاں والا کے بیٹے کا نام آ رہا تھا اور مقدمے میں سے اس کو نکلوا کر حنیف کا نام ڈلوایا گیا۔ اس کو سات سال کی سزا ہوئی اور وہ جیل چلا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ جب سزا پوری کر کے جیل سے واپس آیا تو اس نے اور شفیق بابا نے مل کر بِلا ٹرکاں والا کو مارنے کا منصوبہ بنایا۔ انھیں اس بات کا غصہ تھا کہ بلا نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے ان کو پھنسا دیا اور رہا بھی نہیں کروایا۔‘

صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ حنیف بابا اور شفیق بابا کا باپ عید محمد، بِلا ٹرکاں والا کا پرانا ملازم اور ساتھی تھا جس کے ریٹائر ہونے پر یہ دونوں بھائی اس کی جگہ ان کے پاس ملازم ہوئے تھے اور ان کے گن مین ہوتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے پہلے بِلا کو مارنے کی ایک دو کوششیں کیں جو ناکام ہو گئیں اور بالآخر ایک دن اس کے ڈیرے پر ہی وہ اس کو مارنے میں کامیاب ہو گئے۔‘

بِلا کا قتل کر کے وہ دونوں فرار ہو گئے۔

دشمنی اور ٹیپو ٹرکاں والا کا ’عروج‘

فائل فوٹو: پولیس اہلکار ایئرپورٹ پر کھڑے ہیں

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

ٹیپو ٹرکاں والا جب دبئی سے لاہور واپس پہنچے تو ایئرپورٹ کے باہر ایک مسلح شخص نے ان پر فائرنگ کر دی (فائل فوٹو)

ٹرکاں والا خاندان کے لیے اندرون لاہور کے مبینہ ’انڈر ورلڈ‘ کے چند بڑے کرداروں سے دشمنی کی بنیاد بِلا ٹرکاں والا کے اسی قتل کے بعد پڑی۔

بلا کے قاتلوں حنیف اور شفیق نے بِلا کو قتل کرنے کے بعد لاہور کے علاقے گوالمنڈی کے ’کاروباری‘ طیفی بٹ اور گوگی بٹ کے پاس جا کر پناہ لے لی۔

صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل عرفی گوگی بٹ اس زمانے میں اندرون لاہور کے انڈر ورلڈ کے بڑے نام تھے۔

’وہ خود کو کاروباری کہلاتے تھے جبکہ زیادہ تر ان کا تعلق زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے اور بدمعاشی سے جوڑا جاتا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں یہ دونوں بھی اپنے ڈیروں پر اشتہاریوں اور جرائم پیشہ افراد کو پناہ دیتے تھے اور پھر انھیں ہی اپنے کاموں کے لیے استعمال بھی کرتے تھے۔ صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ طیفی بٹ اور گوگی بٹ دونوں پھوپھی زاد بھائی ہیں۔

’یہ دونوں پولیس کو زیادہ تر زمینوں پر ناجائز قبضوں اور بھتّہ وغیرہ کے مقدمات میں مطلوب رہتے تھے۔ یہ اشتہاری مجرموں کو پناہ بھی دیتے تھے اور مجرم بھی ان کے لیے کام کرتے تھے۔ انڈرورلڈ میں ان لڑائیوں میں بھی ان اشتہاریوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔‘

صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ جب سنہ 1994 میں بِلا ٹرکاں والا کو مارنے کے بعد حنیف اور شفیق نے ان کے پاس پناہ لی تو وہاں سے ٹیپو ٹرکاں والا کی ان سے خاندانی دشمنی کی بنیاد پڑی۔

’ٹیپو اس معاملے میں ہوشیار تھا وہ خود سامنے نہیں آیا لیکن اس نے ان دونوں (حنیف اور شفیق) کو مروا دیا۔ ان دونوں گینگ کے لوگ پولیس کو ایک دوسرے کے خلاف مخبریاں بھی دیتے تھے۔‘

ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ ٹیپو ٹرکاں والا نے ’مل ملا کر پولیس مقابلے میں ان دونوں کو مروایا۔‘

صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ یہ ایک تاثر ضرور موجود ہے کہ ’پولیس مقابلے‘ میں مارے جانے کے پیچھے ٹیپو ٹرکاں والا کا ہاتھ تھا تاہم ’کیونکہ اس واقعے کو ایک پولیس مقابلہ قرار دیا گیا تھا تو کہا تو یہی جائے گا کہ ان کو پولیس نے مارا۔‘

اس کے بعد ٹیپو ٹرکاں والا پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے جن میں وہ بچتے رہے۔ ان حملوں میں بھی مختلف اشتہاری اور ’کرائے کے شوٹر‘ استعمال ہوتے تھے تاہم تحقیقات کا تانہ بانہ طیفی اور گوگی بٹ کے گینگ سے جا ملتا

Post a Comment

Previous Post Next Post

728x90